بریل لینگویج میں قرآن کریم لکھنے کا تحقیقی جائزہ
DOI:
https://doi.org/10.36476/JIRS.3:1.06.2018.02الكلمات المفتاحية:
بریل لینگویج، نابینا افراد، تعلیم وتعلم ، املاء وتلقین، بریل کوڈالملخص
دور قدیم میں نابینا افراد کی تعلیم کا واحد ذریعہ دوسرے عام بینا افراد کی طرح تعلیم وتعلم ، املاء وتلقین کا تھا، نظر سے محروم اندھوں کے لیے اس بات کی کوئی صورت نہ تھی کہ وہ لکھی ہوئی عبارت کو پڑھ سکیں، مگر عصر حاضر میں یہ معمہ بھی حل ہو گیا اور بینائی سےمحروم یا کمزور نظر والے افراد کی تعلیم وتربیت کے لیے بریل لینگویج ایجاد کی گئی۔ نا بینا افراد قدم قدم پر بینا افراد کے محتاج نہیں رہ جاتے، اس طرح قرآن مجید حفظ کرنے والے کسی کی مدد کے بغیر قرآن یاد کر سکتے ہیں اور بھولنے کی صورت میں اس کی طرف مراجعت کر سکتے ہیں اسی طرح براہ راست قرآن مجید کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ بریل لینگویج نا بینا افراد کی تعلیم وتعلم کے لئے ایک کلید ہے اور اس سے مراد وہ ابھرے ہوئے نقوش ہیں جنھیں ہاتھ کے پوروں سے چھوکر لفظ کی پہچان کی جاتی ہے۔یہ موٹے کاغذ پر ابھرے ہوئے نقطوں کی شکل میں ہوتی ہیں، جسے عام طور پر نابینا افراد اپنی انگلیوں کے پوروں سے چھوتے ہیں جس سے انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کس نقطے سے کون سا حرف مراد ہے؟ اس طریقہ کے ایجاد سے آہستہ آہستہ بریل کوڈ میں مختلف کتابیں تیار ہوگئیں، رسالے نکلنے لگے اور نابینا افراد کے لیے پڑھنے اور لکھنے کی ایک وسیع دنیا کھل گئی۔ نابینا افراد کے لیے اس پیش رفت کو اسلام نہ صرف پسند کرتا ہے، بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے، اس لیے اب بریل لینگویج کی مدد سے نابینا افراد کی تعلیم کے بڑے بڑے دینی و تعلیمی ادارے بھی کھل گئے ہیں اور ایسے لوگوں کے لیے دینی لٹریچر بھی تیار کیا جانے لگا ہے۔ زیر نظر مقالہ میں بریل لینگویج کی مختصر تاریخ بیان کی گئی ہے اور دلائل سے ثابت کیا گیاہے کہ عربی رسم الخط اور رسمِ عثمانی نہ ہونے کے باوجود نابیناؤں کی مجبوری کی بناء پر بریل لینگویج میں قرآن مجید تیار کرنا جائز ہےیا نہیں؟ نیز بریل لینگویج میں لکھا ہوا قرآن مجید مصحف کے حکم میں ہوگا یا نہیں؟