آزادی اظہار کی حدود قیود:مسئلہ عصمتِ انبیاء اور اقوام متحدہ

المؤلفون

  • فاروق عبداللہ پی ایچ ڈی سکالر، شیخ زاید اسلامک سنٹر، یونیورسٹی آف پنجاب، لاہور
  • محمد عبداللہ ایسوسی ایٹ پروفیسر، شیخ زاید اسلامک سنٹر، یونیورسٹی آف پنجاب، لاہور

DOI:

https://doi.org/10.36476/JIRS.3:2.12.2018.04

الكلمات المفتاحية:

توہین رسالت، اقوام متحدہ، آزادیٰ اظہار، عصمت انبیاء

الملخص

مغرب عام طور پر مسلم دنیا کو اس بنیاد پر مورد الزام ٹھہراتا ہے کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کو تسلیم نہیں کرتی لیکن حقیقت میں آزادیٔ اظہار کا حق دینے میں اسلام کو الویت حاصل ہے۔ اسلام کے آنے سے پہلے روم میں حکمران عوام کو غلام بناتے تھے۔ یونانی وزراء، رومن کیتھولک پادری، اور وزارتی ماہرین ان افراد کی سرزنش کرتے تھے جو غیر منظور شدہ مذہبی نقطہ نظر بیان کرتے تھے۔ برطانوی پارلیمنٹ نے 1689ء میں حقوق کا ایک بل پاس کیا جس میں آزادی سے بات کرنے کے حق کا اعلان کیا گیا۔ 1789ء کے فرانسیسی انقلاب کے دوران آزادانہ طور پر بولنے کو ہر فرد کا فطری حق قرار دیا گیا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 18 اور 19 کی شقوں میں اظہار رائے پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی جس کی وجہ سے آزادی اظہار کے نام پر توہین رسالت، عقائد یا مذہبی روایات کی بے عزتی سے متعلق راستہ کھلا ہوا ہے۔ اسلام کے مطابق علاقائی، قومی اور عالمی امن کے لیے تمام لوگوں کی عزت و احترام کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ کوئی بھی ایسی بات جو کسی بھی فرد، نسل، مذہبی اجتماع یا کسی اقلیتی فرد کے امن، عزت اور فخر کو بطور اصول مجروح کرتی ہو اور اس طرح کے الفاظ کو آزادی اظہار کے معنی میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔

التنزيلات

منشور

2018-12-26

كيفية الاقتباس

فاروق عبداللہ, و محمد عبداللہ. 2018. "آزادی اظہار کی حدود قیود:مسئلہ عصمتِ انبیاء اور اقوام متحدہ". مجلة العلوم الإسلامية والدينية 3 (2). Haripur, Pakistan:57-82. https://doi.org/10.36476/JIRS.3:2.12.2018.04.