طبی شعبہ میں ضرورت و حاجت سے متعلقہ فقہی قواعد کی معاصر تطبیقی صورتیں
DOI:
https://doi.org/10.36476/JIRS.2:2.12.2017.07الكلمات المفتاحية:
شرعی احکام، جدید اطلاق، غیر معمولی معاملات، طبی اسلامی قوانین، قواعد فقہیہالملخص
دین اسلام نے انسان کی صحت او ر تندرستی کا اہتمام کرتے ہوئے کسی مرض کی حالت میں علاج و معالجہ کی ترغیب دی ہے اور اس کی اہمیت مقاصد شرعیہ میں سے حفظ البدن اور حفظ النفس جیسے مقاصد سے تعلق کی وجہ سے اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ چنانچہ امراض اور حوادث کی کثرت کی وجہ سے دن بدن مختلف شعبہ جات میں ماہرین امراض کی بڑھتی ہوئی ضرورت نے جہاں حکومتوں کو میڈیکل اداروں کو ترقی دینے کی طرف متوجہ کیا ہے وہاں اس ترقی یافتہ دور کی ضروریات اور نت نئی بیماریوں کے علاج کو مد نظر رکھتے ہوئے جدید ترین طبی آلات اور مشینوں کو نصب کرنے کی ضرورت بھی پیش آئی ہے۔ علاج و معالجہ کی ضرورت کی غرض سے نت نئی امراض کے علاجات اور ادویہ سازی کے کاموں میں بہت زیادہ ترقی ہوئی ہے کہ اب کوئی ایسا مرض نہیں جس کو لا علاج کہا جا سکے، مثلا ً وہ ادویہ جن کو زہر کی مدد سے تیار کیا گیا ہے ، اسی طرح وہ ادویہ جن میں شراب ، خنزیر کا گوشت اور چربی شامل ہو، اور وہ ادویہ جن کو الکحل کی مدد سے تیار گیا ہو۔ اسی طرح علاج کے مختلف طریقے ہیں جن میں انسانی اعضاء کا ایک دوسرے کی طرف انتقال ہے، انسانی اعضاء کا ایک دوسرے کو ہدیہ کرنا، شامل ہے۔ اسی طرح ضرورت و حاجت کی صورتو ں میں عورۃ (ستر)کا ننگا کرنا، فوت ہونے والی حاملہ عورت کے پیٹ سے بچے کو نکالنا، مصنوعی پیدائش نسل کے طریقوں کو استعمال کرنا وغیرہ بھی ایسے طرق علاج ہیں کہ جنہیں اگر استعمال نہ کیا جائے تو مریض کو نقصان پہنچ سکتا ہے ، لہذا ایسی صورتوں مریض کے لیے آسانی کی تدابیر کیا ہو سکتی ہیں اور اس سے مشقت کو کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے ؟ زیرِ نظر مقالہ میں مریض کے نقصان کے ازالے کے لیے اور اسے آسانی دینے کے لیے جن فقہی اور شرعی قواعد کی مدد لی جا سکتی ہے ان کو بیان کیا گیا ہے۔