فقہائے اربعہ ؒ کےاقوال کی روشنی میں نصابِ زکوٰۃ کے معاصرانہ تقاضے:ایک تحقیقی جائزہ
DOI:
https://doi.org/10.36476/JIRS.5:1.06.2020.11الكلمات المفتاحية:
زکوٰۃ، نصاب زکوٰۃ، چاندی، ضم بالاجزاء، ضم بالقیمۃالملخص
زکوٰۃ اسلام کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے۔ ایک طرف یہ دولت مند افراد کی آمدنی کو پاک کرتا ہے تو دوسری طرف ضرورت مندوں کی مدد کرتا ہے جس سے بھائی چارے کی سماجی قدر کو فروغ ملتا ہے۔ چند چیزوں، جیسے کہ سونا، چاندی اور مویشیوں وغیرہ، کا نصاب احادیث میں واضح طریقے سے ذکر کیا گیا ہے تاہم ایسی حالت میں جب کسی شخص کا مال اموال زکوٰۃ کی مختلف قسم کا مرکب ہو اور ان میں سے کوئی بھی نصاب کی حد تک نہیں پہنچتا، اس صورت میں کیا سونا، چاندی یا کاغذی کرنسی کو زکوٰۃ کی فرضیت کے لیے جمع کیا جائے گا یا نہیں؟ امام مالک، امام ابو یوسف اور امام محمد کا خیال ہے کہ انضمام ان تمام اشیاء کی مقدار/حصوں پر مبنی ہوگا جبکہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک انضمام سونے اور چاندی کی قیمت پر مبنی ہوگا اور اگر مشترکہ اثاثوں کی قیمت چاندی کے نصاب کی قیمت تک پہنچ جائے تو اس شخص کو صاحبِ نصاب تصور کیا جانا چاہئے۔ یہ اصول قربانی پر بھی لاگو ہوگا۔ فی الحال، سونے اور چاندی کی قیمت میں بہت زیادہ فرق کی وجہ سے، اگر قیمت کی بنیاد پر مختلف اثاثوں کے انضمام کو قبول کیا جائے تو ایسے لوگ بھی نصاب کے حامل بن جاتے ہیں جو مالی پریشانیوں میں مبتلا ہیں اور انہیں زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ قربانی بھی کرنی پڑتی ہے۔ اس مقالے میں زکوٰۃ اور اس کی شرائط کو مختصراً بیان کیا گیا ہے نیز مختلف نصابوں کے امتزاج اور ان کے مجموعہ پر چاندی کی قیمت کے اثرات کی روشنی میں جدید دور کے مسائل پر بحث کی گئی ہے۔

التنزيلات
منشور
كيفية الاقتباس
إصدار
القسم
الرخصة
الحقوق الفكرية (c) 2020 Dr. Javed Khan, Dr. Muhammad Mushtaq Ahmed

هذا العمل مرخص بموجب Creative Commons Attribution 4.0 International License.