برصغیر میں اصول تفسیر: ارتقاء ، تنوع اوراس کےاسباب
DOI:
https://doi.org/10.36476/JIRS.4:2.12.2019.02الكلمات المفتاحية:
اصول تفسیر، برسغیر، ارتقاء، تنوع، اسبابالملخص
قرآن اللہ رب العزت کا کلام ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے پہلے مفسر تھے اور صحابہ کرام نے ان تفسیری روایات کو امت تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیا اور یہ سلسلہ اب تک مسلسل جاری ہے۔ برصغیر میں قرآن مجید کے تراجم اور اس کی تفسیر کا کام تیسری صدی ہجری میں شروع ہوا۔ برصغیر میں سینکڑوں تفاسیر عربی، فارسی، انگریزی اور اردو زبانوں میں موجود ہیں۔ برصغیر میں سرسید، مولانا مودودی، مولانا فراہی، مولانا شبیر عثمانی، اس میدان کے بڑے نام ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نے قرآن کی تشریح کے لیے ایک الگ تھلگ طریقہ کا انتخاب کیا ہے۔ مختلف ادوار کے سماجی منظر نامے میں موجود تبدیلیوں کی وجہ سے ان اصولوں میں بہت سے فرق ہیں۔ اس مضمون میں ان تفاسیر میں موجود تنوع اور اس کے اسباب پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ تجزیاتی مطالعہ کی بنیاد پر معلوم ہوتا ہے کہ اس تنوع کی وجہ یہ تصور ہے کہ قرآن کی تفسیر عقلی کے بجائے زبانی روایات پر مبنی ہے۔ نیز ابتدائی صدیوں میں کسی نے بھی قرآن کی تفسیر کے لیے یہ اصول/طریقہ مرتب نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انیسویں صدی میں سائنس اور مستشرقین کے چیلنج کی وجہ سے بعض علماء نے اصول تفسیر کو اپنی سمجھ کے مطابق مرتب کیا جبکہ بعض نے روایتی تسلسل پر اصرار کیا۔